تذکیر باحکام اللہ

 

1-علم الاحکام

علوم القرآن کی پہلی قسم علم الاحکام ہے۔ احکام حکم کی جمع ہے۔ لہذا علم الاحکام سے مراد قرآنی احکامات کی معرفت ہے۔ حکم بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کے اس خطاب کو کہا جاتا ہے، جو بندوں (مکلف)کے افعال سے متعلق ہو اور اسے بذریعہ طلب، اختیار یا سبب لایا گیا ہو۔ طلب میں امر یعنی کسی فعل کو کرنے اور نہی یعنی کسی فعل سے رکنے دونوں کا حکم شامل ہے۔ اس کا بجا لانا مکلف کے ذمے لازمی ہے۔ اگر طلب بطریقِ الزام ہے تو حکم واجب یا حرام کہلائے گا اور اگر بطریقِ ترجیح ہے، تو اس صورت میں مندوب یا مکروہ شمار ہو گا۔ جبکہ اختیار میں فعل کا کرنا نہ کرنا دونوں برابر ہیں، یعنی اس درجہ میں مکلف کو کسی فعل کے کرنے نہ کرنے کے مابین اختیار حاصل ہے۔ چاہے تو کرے چاہے تو نہ کرے، حکم کا یہ درجہ اباحت کہلاتا ہے۔ اسی طرح سبب سے مراد کسی چیز کو کسی حکم کا سبب، شرط یا مانع بنانا ہے۔ یعنی یہ حکم اس وقت مطلوب ہو گا جب اس کا سبب پایا جائے، اس وقت صحیح ہو گا جب اس شرائط پائی جائیں، اور اس وقت درست نہیں ہوگا جب کوئی مانع پایا جائے۔ مثلاً نماز کا وقت نماز کے حکم کے لیے سبب ہے۔ علم الاحکام بہت وسیع مضمون ہے۔ جس میں "فرد" سے متعلق عبادات (نماز، روزہ، حج زکوۃ) مناکحات(نکاح، طلاق، خلع وغیرہ) معاملات (تجارت، وصیت، وراثت وغیرہ) اور معاشرت (اخلاق و عادات) وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ ریاست سے متعلق، دستوری قانون، فوجداری قانون (حدود)، پروسیجرل لاء (الادب القاضی) اور بین الاقوامی قانون (السیر) شامل ہیں۔ یہ سب فقہ کی مباحث ہیں، جن کی بنیاد قرآن کی آیاتِ احکام 500 ہیں۔