قرآن مجید کے موضوعات اور ان کا باہمی منطقی ربط

قرآن مجید کے موضوعات اور ان کا باہمی منطقی ربط
قرآن مجید ہزاروں آیات پر مشتمل ایک بہت بڑ ی کتاب ہے ۔ مگر مضامین کے اعتبار سے یہ ایک انتہائی مختصر کتاب ہے جس کے بنیادی موضوعات انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ۔ یہ موضوعات نہ صرف تعداد میں بہت کم ہیں بلکہ آپس میں مربوط طریقے سے جڑ ے ہوئے ہیں ۔ جس کے بعد اگر ان کی تعداد کم کی جائے تو گنتی میں یہ صرف تین رہ جاتے ہیں ۔یہ موضوعات درج ذیل ہیں ۔
۱) دعوت اور اس کے رد و قبول کے نتائج
۲) دعوت کے دلائل
۳) مطالبات

پھر ان تین موضوعات کو مضامین کے اعتبار سے ذیلی مضامین میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی تفصیل ہم الگ الگ عنوان سے بیان کریں گے ۔
دعوت اور اس کے نتائج
قرآن مجید بنیادی طور پر دعوت کی ایک کتاب ہے ۔ اس لیے یہی اس کا پہلا اور بنیاد ی موضوع بھی ہے ۔میں اس موضوع یا دعوت کو ’’ذات، صفات اور ملاقات‘‘ کے عنوان سے بیان کرتا ہوں ۔ ذات سے مراد ذات باری تعالیٰ کا درست تصور ، اس کی بندگی کی دعوت اس کی وحدانیت پر ایمان ہے ۔ دوسری چیز اس کی وہ صفات و سنن ہیں جن کے ذریعے سے وہ مخلوق سے متعلق ہوتا ہے ۔ یہ صفات خدا کے جمال، جلال اور کمال کی زندہ تصویریں ہیں اوراس کی رحمت، قدرت اور وحدانیت کا جامع تعارف کراتی ہیں ۔جبکہ سنن یہ بتاتی ہیں کہ وہ افراد و ملل کے ساتھ کن اصولوں پر معاملہ کرتا ہے ۔
تیسری چیز اس کی ملاقات ہے ۔ ملاقات کے دو پہلو ہیں ۔ ایک وہ جس میں پروردگار عالم کی ذاتِقدیم ، فانی بندوں کی طرف توجہ فرماتی ہے ۔ اُس وقت اس کا تکوینی نظام حرکت میں آتا ہے اور اس کے فرشتے اس کا پیغام لے کر کچھ خاص بندوں پر اترتے ہیں ۔ یہ بندے جنھیں نبی یا رسول کہا جاتا ہے اس پیغام کو کتاب الہی کی شکل میں اس کے باقی بندوں تک پہنچاتے ہیں ۔ آخری دفعہ انسانیت سے آسمان کا یہ رابطہ پیغمبر عربی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے عرب کے ریگزار میں ہواجب قرآن کریم کی شکل میں رب نے بندوں سے خطاب فرمایا۔
یہ خطاب گویا مجازی معنوں میں بندوں کی رب سے ملاقات ہے ۔ملاقات کا دوسرا پہلو وہ ہے جس میں درحقیقت بندے اپنے رب سے ملاقات کریں گے ۔یہ ایک نئی دنیا میں ہو گا جو روز قیامت کے بعد قائم ہو گی۔اُس دنیا میں دعوت حق کو قبول کرنے والوں کو ہمیشہ کے لیے جنت کی ابدی بادشاہی میں بسادیا جائے گا۔ جبکہ اس کا رد کرنے والے جہنم کی سزا بھگتیں گے ۔اس نئی دنیا کے احوال و مقامات کی تفصیل، اس کی نعمت و انعام کی خوشخبری اور اس کے عذابوں کی تنبیہ قرآن کریم کی دعوت کا اہم ترین موضوع ہے ۔ اسی میں قرآن مزید وضاحت یہ کرتا ہے کہ جس قوم میں کسی رسول کی بعثت ہوجاتی ہے وہاں سزاجزا کا یہ سلسلہ دنیا ہی میں شروع ہوجاتا ہے ۔ یہ ماضی میں بھی متعدد اقوام کے ساتھ ہوا اور آخری رسول یعنی نبی عربی کی قوم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا۔
یہ گویا قرآن مجید کا پہلا موضوع ہے جو بڑ ی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔ ایمانیات کے حوالے سے قرآن مجید میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ اس دائرے کے اندر ہی بیان ہوا ہے ۔اور جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ دائرہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت کے اردگرد ہی گھومتا ہے ۔ وہی دعوت کا اصل مرکز اور وہی بنیادی خیال ہے ۔ باقی جو ہے اسی بنیادی خیال کی توسیع ہے ۔
دعوت کے دلائل
قرآن مجید کے مضامین کا دوسرا حصہ مذکورہ بالا دعوت کے دلائل پر مشتمل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کسی تعصب یا جبر کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعقل او رتفکر کی بنیاد پر ایمان کا مطالبہ کرتے ہیں ۔وہ اس بات کا بہت اہتمام کرتے ہیں کہ انسان یہ سمجھ لیں کہ توحید ، آخرت اور رسالت کی دعوت پوری طرف عقل و فطرت پر استوار ہے ۔ اس کی جڑ یں انسان کے اپنے وجود سے پھوٹتی ہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تائید میں کھڑ ا ہے ۔ مسلمہ علم کی روایت ہو یا انسانی تاریخ کا تسلسل، نظم کائنات ہو یا اس میں پائے جانے والے قدرت اور ربوبیت کے آثار ہر چیز انہی دلائل کی تقویت اور حمایت میں یک زبان ہے ۔انسانی ضمیر سے لے کر انفس و آفاق کی نشانیاں تک اس دعوت کی امین ہیں اور اس کے گواہ بھی۔مذہب کی روایت ہو یا سابقہ کتابوں کی پیش گوئیاں سب اس دعوت کی تصدیق کرتی ہیں ۔
یہی قرآن مجید کی دعوت کے دلائل ہیں مگر یہ مجرد الفاظ و اشارات پر مشتمل نہیں بلکہ انتہائی منظم انداز میں باقاعدہ مرتب ہیں ۔ یہ دلائل آخری درجے میں یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ پیغام حق ہے اور اس کے سواسچائی کہیں اور نہیں پائی جاتی ۔توحید، رسالت اور آخرت کے ان دلائل کی کچھ مزید تفصیل ہم ذیل میں کر دیتے ہیں ۔
الف :توحید کے دلائل
قرآن مجید میں توحید کی پانچ دلیلیں بیان ہوئی ہیں ۔
۱) دلیل ربوبیت
یہ دلیل بتاتی ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو سامان زندگی بہترین طریقے پر میسر کیے گئے ہیں وہ زبان حال سے گواہ ہیں کہ اس درجہ متنوع کائنات میں ہم آہنگی پیدا کر کے زمین سے آسمان تک انسان کی ربوبیت کا اہتمام کرنے والی ایک ہی ہستی ہے اور وہی ہے جو انسان کے جذبہ پرستش اور بندگی کی تنہا حقدار ہے ۔
۲) دلیل قدرت
اس دنیا میں قدرت کاملہ صرف ایک ہی ہستی کو حاصل ہے جو کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں ۔ہر نفع و ضر ر اسی کے ہاتھ میں ہے ۔اس لیے وہی مستحق عبادت ہے ۔ اس کے علاوہ جن کی پوجا کی جاتی ہے وہ کوئی قدرت نہیں رکھتے ۔ وہ بے جان بت ہیں ، کمزور اور محتاج انسان ہیں یا پھر وہ فرشتے ہیں جو خود کوئی قدرت اور طاقت نہیں رکھتے ۔
۳) دلیل فطرت
انسانی کی فطرت اندر سے گواہی دیتی ہے کہ اس کا رب ایک ہی ہے ۔ربوبیت کا یہ اقرار روز ازل سے اس کی فطرت کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے ۔خواہشات اور تعصبات کی بنا پر اس فطرت پر پردہ پڑ جاتا ہے ، مگر مصیبت میں یہ پردہ پھٹ جاتا ہے اور انسان ہر طرف سے مایوس ہوکر ایک ہی رب کو پکارتا ہے ۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک خدا ہی اصل معبود ہے ۔
۴) نظم کائنات کی دلیل
انسان جس کائنات میں کھڑ ا ہے وہ بالکل متضاد اور متنوع عناصر سے مرکب ہے ۔مگر مشاہدہ ہے کہ زمین و آسمان، خشکی وپانی، ہوا اور آگ جیسے متضاد عناصر ملتے ہیں اور بقائے زندگی کا وہ سامان(Life supporting System)فراہم کرتے ہیں جو ایک خالق کے بغیر ممکن نہیں ۔ اگر ان کے خالق الگ الگ ہوتے تو اپنی مرضی سے ان متضاد عناصر کو کنٹرول کرتے اور یوں زمین میں فساد برپا ہوجاتا۔ مگر یہ دھرتی فساد سے نہیں بلکہ زندگی کے حسن سے عبارت ہے ۔ یہ ایک خالق کے وجود کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔
۵) انسانی علم و روایت کی دلیل
انسان کا سفر توحید کی سیدھی شاہراہ سے شروع ہوا۔ انسان اس راہ سے بھٹک کر بارہا شرک کی تاریک را ہوں میں نکل گیا لیکن توحید کی سیدھی راہ اپنی جگہ باقی رہی۔ایک خدا کے سوا کتنے معبود بنے اور وہ کون تھے اس بارے میں بہت اختلاف ہے ، مگر ایک خدا موجود ہے یہ انسانی روایت کی وہ وراثت ہے جس میں کبھی اختلاف نہیں ہوا ۔یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل تعلیم ابتدا ہی سے توحید کی تھی۔ باقی سب انحرافات تھے ۔مزید یہ کہ توحید کے حق میں تو آسمانی صحائف میں بہت کچھ پایا جاتا ہے ، مگر شرک کے حق میں ان میں ایک دلیل بھی موجود نہیں ہے ۔حتیٰ کی حضرت عیسی جنہیں سب سے زیادہ بڑ ے پیمانے پر اللہ کا شریک بنایا گیا ان کی تعلیم بھی شرک کے بیان سے بالکل خالی ہے ۔ یہی معاملہ انفس و آفاق اور فطرت انسانی کا ہے جس میں شرک کے حق میں کوئی چیز نہیں پائی جاتی ۔
یہ توحید کے وہ پانچ دلائل ہیں جو قرآن پاک میں بار بار مختلف پہلوؤں سے دہرائے گئے ہیں ۔ توحید کے یہ دلائل وجود بار ی تعالیٰ کی بھی دلیل ہیں ۔ تاہم قرآن کریم میں ایک جگہ براہ راست وجود باری تعالیٰ کی بھی دلیل دی گئی ہے ۔ اسے ہم توجیہ کی دلیل کہہ سکتے ہیں ۔
توجیہہ کی دلیل
اس دلیل کا استدلال یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے اپنی توجیہ چاہتی ہے ۔مگر خوداس کائنات کی کوئی توجیہہ انسان آج تک نہیں پیش کرسکا۔کائنات کی واحد توجیہہ اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات والا صفات ہے جس کے نور سے دیکھا جائے تو آسمان و زمین کی ہر شے اپنی جگہ ٹھکانے پر نظر آئے گی۔اس نور سے محروم ہونے کے بعد شرک کا سراب باقی رہ جاتا ہے یا پھر الحاد کا تہہ درتہہ اندھیرا۔ جس کے بعد کوئی روشنی ممکن نہیں ۔
ب :رسالت کے دلائل
رسالت کے سات دلائل قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں ۔ رسالت و نبوت کا انسٹی ٹیوشن اب تاقیامت چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی پر منحصر ہے اس لیے ہم دلائل اسی پس منظر میں بیان کر رہے ہیں ۔ گرچہ قرآن جب سابقہ انبیا کی دعوت کو بیان کرتا ہے تو ان کی سچائی کے دلائل بھی وہاں زیر بحث آ جاتے ہیں ۔مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے کم و بیش وہی ہوتے ہیں جو نبی آخر زمان کے حوالے سے بیان ہوئے ہیں ۔
۱) کلام کا معجزہ
پہلی دلیل جو رسالت کے اولین مخاطبین کو دی گئی جو زبان و بیان کے ہنر میں یکتا تھے ۔انہیں چیلنج دیا گیا کہ اس کلام کو اگر گھڑ ا ہوا انسانی کلام سمجھتے ہیں تو اس جیسی کوئی ایک سورت بنا لائیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے کفار مکہ نے آپ کی مخالفت اور ایذا رسانی میں کوئی کسر نہ چھوڑ ی لیکن کبھی اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش تک نہ کی۔ اس لیے کہ یہ ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔یہی اس کلام کے الوہی ہونے کا سب سے بڑ ا ثبوت ہے ۔
۲) سابقہ سیرت
نبوت کی دوسری دلیل خود سیرت مصطفیٰ تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت سے قبل اہل عرب کے درمیان ایک عام آدمی کی حیثیت میں چالیس برس رہے ۔ اس بے مثل سیرت کے شخص کو وہ خودصادق وامین کہتے تھے ۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ اخلاق کے پیکر ایک تاجر تھے جنہیں مذہبی مباحث اور شعر و ادب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ پھر یہی ہستی ایک روز اچانک اعلان نبوت کرتی ہے اور مذہب اور ادب دونوں کی روایت کو لاجواب کر دیتی ہے ۔سوائے اس بات کے ان پر اللہ کا کلام اترا اس بات کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی کہ یہ انقلابی تبدیلی کیسے رونما ہوئی۔
۳) کلام کا ارتقا اور تضاد سے پاک ہونا
اگلا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا ارتقا اور تضاد سے پاک ہونا ہے ۔ اس دنیا میں ہر مفکر، شاعر، دانشورکا ایک فکری ارتقا ہوتا ہے ۔وہ کہیں نہ کہیں زانوئے تلمذ تہہ کرتا ہے ۔وہ سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرتا ہے ۔ وہ فکری درستی، ارتقا اور بہتری کے مسلسل ایک لازمی مرحلے سے گزرتا ہے ۔ اس عمل میں ممکن نہیں کہ اس کی فکر اور کلام تضادات سے پاک رہ جائے ۔ دنیا کے کسی عالم، مفکر ، شاعر اور دانشور کو اس سے استثنا نہیں ۔ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی وہ ہے جس نے سیکھے بغیر بہترین کلام دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں نہ ارتقا آیا او رنہ کہیں تضاد پیدا ہوا۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں نہ کہ کوئی عام انسان۔
۴) ماضی کادرست اور تصیح شدہ بیان اور مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیاں
آپ نے نہ صرف ’’اُمی ‘‘ ہونے کے باجود سابقہ کتابوں اور انبیا کے واقعات کو بیان کیا بلکہ وہاں جو کچھ تاریخی اور علمی غلطیاں تھیں ان کو چھوڑ کر صرف صحیح واقعہ سنایا۔ بارہا آپ نے اہل کتاب کے پوچھنے پر ایسے تاریخی واقعات پوری جزئی تفصیلات کے ساتھ بیان کر دیے جس کا علم عرب کے کسی شخص کو تھا ہی نہیں ۔ بلکہ اہل کتاب میں سے بھی چند ہی علما ء ان سے واقف تھے ۔یہ علم خدا کے سوا آپ کو کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ آ پ کے رسول اللہ ہونے کا ثبوت ہے ۔
ماضی کے ساتھ آپ نے مستقبل کی بالکل درست پیش گوئیاں کیں جو جزئی تفصیلات کے ساتھ بالکل درست ثابت ہوئیں ۔یہ پیش گوئیاں جن حالات میں کی گئیں ان میں ان کا پورا ہونا عملاً ناممکن تھا۔مگر وقت نے ان میں سے ہر ایک کو بالکل درست ثابت کیا۔اتنی صحت کے ساتھ واقعات بلکہ اقوام کے حالات کی پیش گوئیاں کرنا سوائے نبی کے کسی اور کے لیے ممکن نہیں جو خدا کے اذن ہی سے کلام کرتا ہے ۔
۵) سابقہ کتابوں کی پیش گوئیاں
آپ کے وجود اور زندگی میں وہ سارے حالات جمع تھے جن کی پیش گوئی پچھلے صحیفوں اور انبیا کی تعلیمات میں ملتی ہے ۔ آپ سے قبل نہ صرف آپ کے آنے کی پیش گوئی کی گئی تھی بلکہ کئی نشانیاں بھی بتادی گئی تھیں ۔ آپ کا وجود ان نشانیوں کے عین مطابق تھا۔ اس لیے اہل کتاب آپ کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح لوگ اپنی اولاد کو پہنچانے میں غلطی نہیں کرتے ۔
۶) تعلیمات
آپ کی دعوت فطرت و اخلاق کے مسلمات، صالحین کی روایت، سابقہ مذہبی صحیفوں کی تعلیمات اورعلم و عقل کی روایت کے عین مطابق ہیں ۔نیز آپ کا کلام ہر طرح کے انسانی اضافوں اور شیاطین کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ ہے ۔اس پس منظر میں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ الوہی تعلیم کے آسمانی سلسلے ہی کا ایک حصہ ہیں نہ کہ اس سے جدا کوئی اجنبی۔ آ پ کی تعلیم میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے فطرت اور اخلاق رد کریں یا علم عقل جس کے خلاف ہو۔ ڈیڑ ھ ہزار برس کے بعد بھی قرآن کا ایک بیان بھی علم و عقل کے مسلما ت کے خلاف ثابت نہیں ہو سکا۔ یہ آپ کی خدائی نسبت کا منہ بولتاثبوت ہے ۔
۷) رسولوں کی اقوام کا انجام
رسول اس دنیا میں حق کی دعوت ہی لے کر نہیں آتا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس دعوت کے رد و قبول کے نتائج کیا نکلیں گے ۔ یہ نتائج آخر ت کے حوالے سے بھی ہوتے ہیں ۔ مگر دلیل رسالت کے پہلو سے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ دعوت کے ردو قبول کے نتائج کی اس دنیامیں بھی نکلنے کی پیش گوئی نہ صرف کی جاتی ہے بلکہ لوگ اپنی آنکھوں سے ان پیش گوئیوں کو پورا ہوتا ہوا دیکھتے ہیں ۔رسول کے منکرین اس کی پیش گوئی کے عین مطابق عذاب کی زد میں آ کر ہلاک کر دیے جاتے ہیں اور ماننے والے زمین کے وارث بنادیے جاتے ہیں ۔ یہ رسول کی سچائی کا سب سے بڑ ا ثبوت ہے ۔