شاہ ولی اللہ اور علوم خمسہ
شاہ ولی اللہ اور علوم خمسہ
قرآن کے علمی مطالعے کے سلسلے میں اب تک اہل علم نے متعدد کاوشیں کی ہیں۔ اس ضمن میں علامہ جلال الدین سیوطی کی "الاتقان فی علوم القرآن" ایک جامع اور مستند تصنیف ہے، جو قرآن کے جملہ مضامین، مباحث اور موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ علامہ سیوطی نے اپنی اس گراں قدر تصنیف میں ہر موضوع کو ایک سے زائد ابواب میں تقسیم کر کے مفصل طور پر بیان کیا ہے جبکہ بحث کا مدار زیادہ تر احادیث، اقوال صحابہ و ائمہ اور روایات کو بنایا ہے۔ اس اعتبار سے الاتقان، علوم القرآن پر نہایت ہی مفید اور عمدہ کتاب ہے اور جامعیت میں بے نظیر ہے۔ اسی طرح دیگر علمائے اصول نے بھی اپنے اپنے انداز میں قرآن فہمی کے سلسلہ میں اپنی خدمات سر انجام دی ہیں جو سب اپنی جگہ قابل قدر اور مفید ہیں لیکن ان سب کاوشوں میں ہر لحاظ سے منفرد اور تقریباً ہر اعتبار سے بے نظیر کاوش شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر دیگر تمام اصولیین کی فکر سے ممتاز، منفرد اور جداگانہ ہے۔ جامعیت، اختصار اور مجتہدانہ اسلوبِ فکر شاہ ولی اللہ کی قرآنی فکر کے اہم تشکیلی عناصر ہیں، ان تینوں عناصر ایک جھلک اصول التفسیر پر آپ کے شاہکار رسالے الفوز الکبیر فی اصول التفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً آپ نے اپنے اس رسالہ کے آغاز ہی میں علوم القرآن کی جو شاندار تقسیم فرمائی ہے، یہ شاہ صاحب قرآنی فکر کی جامعیت کی دلیل اور آپکے مجتہدانہ اسلوبِ فکر کا ثبوت ہے، جو شاید صرف آپ ہی کا خاصہ ہے۔
شاہ ولی اللہ نے کمالِ مہارت سے جملہ قرآنی علوم کو صرف پانچ علوم میں سمیٹ کے رکھ دیا ہے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنے کی مثال شاہ صاحب کے اس کارنامے پر پر بجا طور پر صادق آتی ہے۔ اس حوالے سے قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ پانچوں علوم نہ صرف منصوص علیہ ہیں اور بلکہ ساری نصوص ان کے اندر داخل بھییعنی ان علوم پر باقاعدہ نصوص وارد ہوئی ہیں، دوسرے معنوں میں یہ علوم بلا واسطہ طور پر عبارۃ النص سے ثابت ہیں۔ اسی لیے یہ علوم قرآن کے مستقل اور باقاعدہ علوم ہونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر کوئی نص ان سے خارج بھی نہیں، اس طور پر کہ قرآن کی جملہ نصوص کا مطالعہ انہی پانچ علوم میں سے کسی ایک علم کے تحت آتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے نزدیک قرآن کے جملہ معانی پانچ علوم سے باہر نہیں ہیں۔