علوم اسلامیہ میں فقہ کو جو حیثیت اور مقام حاصل ہے وہ سورج سے بھی زیادہ روشن اور واضح ہے اس لیے کہ یہ علم زندگی سے مربوط اور انسانی شب و روز سے متعلق و ہم رشتہ ہے۔ بالفاظ دیگراسلام کا نظامِ قانون بنیادی طورپر جن پاکیزہ عناصر سے مرکب ہے وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جو اسلامی شریعت کے مرکزی مصادر و مآخذ ہیں، فقہ و قانون کی دنیا میں اسلامی نظامِ قانون، عدل و انصاف، توازن و اعتدال، غلو وتشدد سے اجتناب اورجامعیت و افادیت جیسی امتیازی صفات کے لیے شہرت و مقام رکھتا ہے، اس کی وسعت و گہرائی، سہولت پسندی، حیرت انگیز بے ساختگی، لچک اورانسانی فطرت سے ہم آہنگی تمام حقیقت پسندوں کے یہاں مسلم ہے، جس کا دائرۂ عمل پیدائش سے میراث تک اور عقائد سے لے کر معاملات و سیاست وغیرہ امور تک محیط ہے؛ بلکہ علوم نبویہ کے امین اور کاتب رسول سیدنا حضرت علی کے بقول: ”فقہ: طریقہٴ زندگی کا رہنماہے“۔ اسی لیے تاریخ کے ہر دور میں اس فن پر زمانہ کی بہترین ذہانتیں صرف ہوتی رہیں۔ اسی کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی ظفیرالدین صاحب اس طرح تحریر فرماتے ہیں کہ ”فقہ وفتاویٰ ایسا فن ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں اس لیے کہ انسانی زندگی میں جس قدر واسطہ اس فن اوراس کے اصول و جزئیات سے پڑتا ہے اور جس قدر آئے دن کے مسائل کا جواب یہاں ملتا ہے کہیں اور سے ممکن نہیں“۔اس کی غیرمعمولی حیثیت کا اندازہ مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی اس تحریر سے بھی ہوتا ہے کہ ”مختصر لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا اصل سبب ہے اس لچک کی عملی اور قانونی تشکیل جو اسلام میں ایک عالمگیر مذہب ہونے کی حیثیت سے موجود ہے“یہ معلوم ہوچکا کہ فقہ دراصل قرآن ہی کی عملی تفسیر ہے۔ جیسا کہ جناب سرور صاحب مولانا عبداللہ سندھی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”مولانا کے نزدیک اسلامی فتوحات کے بعد قرآن کے قانون کو چلانے کے لیے فقہا کے مختلف مذاہب اسی مقصد کو پوراکرنے کے لیے معرضِ وجود میں آئے ہیں‘‘۔علوم اسلامیہ کے طلباء کےلیے اس کورس میں عبادات سے متعلق ان تمام مسائل کو شامل کیا گیا ہے جس کا سامنا تقریبا تمام مسلمانوں کو اپنی انفرادی زندگی میں کرنا پڑتا ہے۔اس میں ذکرکیے گئے مضامین ایسے ہیں کہ اگر طلباء ان کو صحیح طور پر سمجھ لیں تو نہ صرف ان کی اپنی ذاتی استعداد میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ دوسروں کی بھی بڑے خوب صورت انداز سے رہنمائی فرماسکتے ہیں۔