مغربی استعمار نے مسلم ممالک میں جہاں سیاسی اثر ورسوخ حاصل کیا اس کے ساتھ ساتھ ذہنی وفکری غلبہ کے لیے بھی منظم کوششیں کیں۔امتِ مسلمہ کو تہذیب ِ مغرب میں مدغم کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا ۔سب سے پہلے یہ کوشش کی گئی کی مشنریز کے ذریعے عالم اسلام کے اندر مسیحیت کو فروغ دیا جائے ،اس کے لیے مسیحی مبلغین اور مبشرین کو باقاعدہ تربیت دے کر بھیجا گیا تاکہ وہ مسلمانوں کے عقیدہ ومذہب کو تبدیل کر سکیں،لیکن اس محاذ پر عیسائیت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔پھر مغربی استعمار نے اسلامی علوم کی ترقی اور اشاعت کے ضمن میں فتنہ ٔ استشراق کو جنم دیا۔تحریکِ استشراق کے گہرے اثرات مسلم معاشرے پرپڑے جس کے نتیجہ میں امت ِمسلمہ کے اندرتجدد کے کئی فتنے پیدا ہوئے، امتِ مسلمہ کئی فرقوں اور مسالک میں بٹ گئی۔مغربی فلسفہ و فکر کی اس یلغار کے مقابلےمیں عالم اسلام کی جانب سے مدافعت کی کوششیں بھی ہوئیں ۔ تحفظ و مدافعت کی یہ کوششیں تین طرح کی تھیں ۔ایک وہ جن میں محظ تحفظ پر قناعت کی گئی ،دوسری وہ جن میں مدافعت کے ساتھ ساتھ مصالحت اور کسر وانکساری کی روش اختیار کی گئی اور تیسری وہ جس نے مغربی فلسفہ و فکر کو یکسر مسترد کر تے ہوئے اسلام کے نظام ِ حیات کو زندگی کے ہر شعبہ میں جاری وساری کرنے کا عزم کیا ۔اور یہ مدافعت تحریکات اسلامی نے کی ۔دعوت وارشاد کا ایک رخ تو وہ ہے جو اس لفظ کے ظاہر سے سمجھ میں آرہا ہے کہ دوسروں کو دین کی طرف بلانا اس مفہوم میں دین کی دعوت جہاں غیرمسلموں کودی جائےگی تو وہیں مسلمان بھی اس دعوت کے مخاطب ہوں گے کہ دین کے جو جو تقاضے ان سے ہیں انہیں احسن انداز سے پور اکیا جائے۔ جب کہ دعوت وارشاد کو دوسرارخ اپنے دین کو بچانا بھی ہے خاص طور پر ان حالات میں جب فتنے اس قدر ظاہر ہو جائیں کہ حق وباطل کی پہچان بھی مشکل ہو جائے ۔ایسے حالات میں نظام ِ اسلام کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں زندہ کرنے کی محنت بھی دعوت وارشا د میں داخل ہے۔ دعوت وارشاد کے اس حصے میں اسی دوسرے رخ کو تفصیلا بیان کیا گیا ہے ۔اس کورس میں بھی کچھ ایسی تحریکات کا تعارف اور ان کے پس منظر کو پیش کیا گیا ہے جس کے مطالعہ سے علوم اسلامیہ کے طلباء کو موجودہ دور کے حالات وواقعات سے ہم آہنگی ہو سکے گی۔