" توضیح حدیث " تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ رسولہ

توضیح" حدیث "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ رسولہ

" میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، الله تعالی کی کتاب اور اس کے نبی اکرم (ﷺ) کی سنت۔"

تشریح

قرآن کریم کو سورۃ آل عمران میں حبل اللہ کہا گیا ، اسی طرح قرآن کریم ہی میں من یطع الرسول فقد اطاع اللہ کہا گیا ، اس لحاظ ان سو مصادر کو تھامنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔۔

اسلام کے پہلے مصدر قرآن کریم میں زندگی میں پیدا ہونے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے، اس میں زندگی میں پیش آنے والے سارے احکام اختصار کے ساتھ بیان کر دئیے گیے ہیں، قرآن میں خود کہا گیا ہے:

ما فرطنا في الكتاب من شيء (سورة الأنعام 38)

“ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی ہے.”

لیکن قرآن میں زیادہ تر موضوعات پر جو رہنمائی ملتی ہے وہ مختصر ہے. ان سب کی تفصیلی وضاحت کی ذمہ داری اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالی. اللہ نے فرمایا:

وأنزلنا إليك الذكر لتبين للناس ما نزل إليهم (سورة النحل 44)

” اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے، اور تاکہ لوگ (خود بھی) غور و فکر کریں “.

پھر آپ نے لوگوں کے سامنے قرآن کی جو تشریح کی وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی تھی، اپنی طرف سے آپ نے اس میں کچھ نہیں ملایا، اسی لئے اللہ نے فرمایا:

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ (سورة النجم 3، 4)

” اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (3) وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے. “

اس کی تائید سنن ابوداود کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه (سنن أبي داؤد بحاشيته عون المعبود 4 / 328-329)

“مجھے کتاب دی گئی ہے اور اسی کی طرح اس کے ساتھ ایک اور چیز (حدیث) دی گئی ہے.”

واضح یہ ہوا کہ سنت یا حدیث بھی قرآن کی طرح ہے اور قرآن کے جیسے یہ بھی وحی ہے لیکن قرآن کا لفظ اور معنی دونوں اللہ کی جانب سے ہے جب کہ حدیث کا مفہوم اللہ کی جانب سے ہے اور اس کا لفظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سےاور دونوں کو یکساں طور پر پہنچانے کا آپ کو حکم دیا گیا ہے.

امام ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا “وحی کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ وحی ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے جو معجزہ کے طور پر ظاہر ہوئی ہے اور وہ قرآن ہے جبکہ دوسری وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور نہ ہی وہ معجزہ کے طور پر ظاہر ہوئی ہے وہ حدیث ہے جو قرآن کی طرح ہی مستند ہے. “(الإحکام فی اصول الأحكام لابن حزم 87)

پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے کام ان دونوں قسموں کی وحی کے مطابق ہوتے تھے. یہی وجہ ہے کہ اسلام کے اصل ماخذ قرآن کے بعد دوسرا ماخذ ‘حديث’ ہے. دونوں کو ملا کر مذہب اسلام کی مکمل تشریح اور اسلامی شریعت کی ساخت بنتی ہے.

حدیث کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سكتا:

قرآن کو سمجھنے کے لئے حدیث کی طرف رجوع کرنا انتہائی ناگزیر ہے کہ حدیث قرآن کی تشریح ہے، مثال کے طور قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم ہے لیکن اس کا طریقہ نہیں بتایا گیا، قرآن میں زکوة دینے کا حکم ہے لیکن اس کا طریقہ نہیں بتایا گیا، قرآن میں روزہ رکھنے کا حکم ہے لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی، ہاں جب ہم حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہاں ہمیں نماز کا طریقہ، اس کی شرائط، اس کی تعداد سب کی وضاحت ملتی ہے، اسی طرح روزے کے مسائل اور زکوة کے نصاب کی تفصیل ہمیں حدیث ہی سے معلوم ہوتی ہے. آخر “کس قرآن میں پایا جاتا ہے کہ ظہر چار رکعت ہے، مغرب تین ركعت ہے، ركوع یوں ہوگا اور سجدے یوں ہوں گے، قراءت یوں ہوگی اور سلام یوں پھیرنا ہے، روزے کی حالت میں کن چیزوں سے بچنا ہے، سونے چاندی کی زكاۃ کی كیفيت کیا ہے، بکری، اونٹ، گائے کی زکوة کا نصاب کیا ہے اور زکوة کی مقدار کیا ہے … “

حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے:

حدیث کی اسی اہمیت وفضیلت کی بنیاد پر مختلف آیتوں اور احادیث میں حدیث پر عمل کرنے اور اسے اپنا آویزہ گوش بنانے کا حکم دیا گیا ہے: اللہ نے فرمایا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (النساء 59)

اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔

مندرجہ بالا آیت میں اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد اس کی کتاب کی طرف لوٹنا ہے اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے سے مراد ان کی زندگی میں ان کی طرف اور ان کے انتقال کے بعد ان کی سنت کی طرف لوٹنا ہے. ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران 31)

” کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناه معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے۔ “

اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالی سے محبت اللہ کے رسول کی تابعداری میں مضمر ہے، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی آپ کے ہر قول، فعل اور آپ کی سیرت کو اپنانے سے ہی ثابت ہو سکتی ہے. اس لئے جس نے سنت پر عمل نہیں کیا وہ اللہ سے اپنی محبت کے دعوی میں بھی جھوٹا سمجھا جائے گا.

ایک مقام پر اللہ نے اپنے رسول کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو دھمکی دی:

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور 63)

سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔

اس سے بھی سخت انداز میں اللہ تعالی نے فرمایا:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: 65)

سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔

قرآن کریم کے علاوہ متعدد احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابو هریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى “. قالوا: يا رسول الله، ومن يأبى؟ قال: “من أطاعني دخل الجنة، ومن عصاني فقد أبى (رواه البخاری)

“میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی علاوہ اس کے جس نے انکار کیا، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول انکار کرنے والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا” (بخاری)ا

ور امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں بیان کیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما: كتاب الله وسنتي ( أخرجه الإمام مالك فی الموطأ 2/899 )

“میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک ان دونوں کو تھامے رہو گے گمراہ نہ ہو گے، اللہ کی کتاب اور میری سنت.”

مقدام بن معديكرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جان رکھو، مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے ساتھ ایسی ہی ایک اور چیز بھی دی گئی ہے، خبردار رہو، ایسا نہ ہو کہ کوئی پیٹ بھرا شخص اپنی مسند پر بیٹھا ہوا کہنے لگے کہ آپ کے لئے اس قرآن پر عمل ضروری ہے، جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو کچھ اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو، حالانکہ جو کچھ اللہ کا رسول حرام کرے وہ ویسا ہی حرام ہے جیسا اللہ کا حرام کیا ہوا ہے.” (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)