کتاب الزکوۃ عن سنن ابی داؤد

  • Dr Muhammad Feroz-ud-Din Shah
  • Incharge Department of Islamic Studies
  • Sargodha University
  • سنن ابو داؤد جلد دوم

زکوٰۃ کا بیان

 

قتیبہ بن سعید، لیث، عقیل، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گے اور عرب کے کچھ لوگوں نے اسلام سے روگردانی کی تو (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جنگ کر نے کا ارادہ کیا اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ ان لوگوں سے کیونکر جنگ کرتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک وہ یہ شہادت نہ دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں جس نے یہ شہادت دے دی اس نے مجھ سے اپنے جان و مال کو بچالیا الا یہ کہ اسلام کا حق اس کا خون چاہتا ہو اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمہ ہو گا (یہ سن کر) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور جنگ کروں گا جنہوں نے نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کر دی، حالانکہ زکوٰۃمال کا حق ہے بخدا اگر ان لوگوں نے مجھ سے اونٹ کی ایک رسی بھی جسے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا کرتے تھے روکی تو میں ان سے جنگ کروں گا اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے بعد جلد ہی مجھے محسوس ہوا کہ اللہ نے جنگ کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا ہے اور میں سمجھ گیا کہ وہ (اپنے فیصلہ میں) حق بجانب ہیں ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو عبیدہ معمر المثنی نے کہا ہے کہ عقال ایک سال کا صدقہ ہے اور عقالان دو سال کا صدقہ۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو رباح بن زید نے بطریق معمر، زہری سے اس کی اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اس میں عقالاً ہے اور اس کو ابن وہب نے یونس سے روایت کرتے ہوئے عناقا ً کہا ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ شعیب بن ابی حمزہ، معمر اور زبیدی نے زہری سے اس حدیث میں کہا ہے کہ اگر بکری کا ایک بچہ بھی نہ دیں گے (تب بھی میں ان سے جنگ کروں گا) اور عنبہ نے بواسطہ یونس زہری سے اس حدیث میں لفظ عناقاً ذکر کیا ہے۔

 

ابن سرح، سلیمان بن داؤد، ابن وہب، یونس نے زہری سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسلام کا حق زکوٰۃ ہے اور لفظ عقلاً استعمال کیا

 

زکوٰۃ کا نصاب

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک بن انس، عمرو بن یحیی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ وسق سے کم (غلہ اور پھل) میں صدقہ نہیں ہے (صدقہ بمعنی زکوٰۃ ہے)

 

ایوب بن محمد، محمد بن عبید ادریس بن یزید، عمرو بن مرہ، ابو سعیدحضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو البختری نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا۔

 

محمد بن قدامہ بن اعین، جریر، مغیرہ، ابراہیم نے کہا کہ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے جس پر حجاجی مہر لگی ہوتی تھی۔

 

محمد بن بشار، محمد بن عبد اللہ، صرہ بن ابی منازل، حبیب، عمران بن حصین، حبیب المالکی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمران بن حصین سے کہا اے ابو نجید (یہ عمران کی کنیت ہے) تم ہم سے ایسی حدیث بیان کرتے ہو جس کی اصل ہم قرآن میں نہیں پاتے یہ سن کر عمران بن حصین کو غصہ آگیا اور کہا کہ کیا تم قرآن میں یہ پاتے ہو کہ ہر چالیس درہم پر ایک درہم زکوٰۃ واجب ہے؟ یا اتنی بکریوں میں ایک بکری کا دینا لازم ہے؟ یا اتنے اونٹوں میں ایک اونٹ ہے؟ کیا تو ان سب مسائل کی تفصیل قرآن میں پاتا ہے؟ اس نے کہا نہیں اس پر عمران بن حصین نے کہا تو تو نے یہ مسئلہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ جو مسئلہ قرآن میں نہیں اس کی دین میں بھی کوئی حیثیت نہیں ہے تم نے ہم سے سنا اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا عمران بن حصین نے کہا اس کے علاوہ بھی چند مثالیں اور بیان کیں۔

 

سامان تجارت پر زکوٰۃ ہے

 

محمد بن داؤد بن سفیان، یحیی بن حسان، سلیمان بن موسی، ابو داؤد، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو ان چیزوں میں زکوٰۃ نکالنے کا حکم دیتے تھے جو ہم فروخت کے لیے رکھتے تھے۔

 

کنز کی تعریف اور زیورات پر زکوٰۃ کا بیان

ابو کامل، حمید بن مسعدہ، خالد بن حارث، حسین بن عمرو بن شعیب، حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد کے ذریعہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئی اس کی بیٹی بھی اس کے ساتھ تھی اور اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو بڑے بڑے کنگن تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا تو ان کنگنوں کی زکوٰۃ دیتی ہے؟ اس نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو (زکوٰۃ نہ دینے کی پاداش میں) آگ کے کنگن پہنائے یہ سن کر اس نے فوراً وہ کنگن اتار ڈالے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے ہیں۔

 

کنز کی تعریف اور زیورات پر زکوٰۃ کا بیان

 

محمد بن عیسی، عتاب، ابن بشیر، ثابت بن عجلان، عطاء، ام سلمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سونے کے اوضاع (ایک قسم کا زیور) پہنا کرتی تھی میں نے پوچھا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا یہ بھی کنز کی تعریف میں آتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مال اتنی مقدار کو پہنچ جائے جس پر زکوٰۃ دینا لازم ہو جاتا ہے اور پھر اس کی زکوٰۃ دی جائے تو وہ کنز میں شمار نہیں ہو گا۔


 

کنز کی تعریف اور زیورات پر زکوٰۃ کا بیان

 

محمد بن ادریس، عمرو بن ربیع بن طارق، یحیی بن ایوب، عیبد اللہ بن ابو جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، عبداللہ بن شداد بن ہاد حضرت عبداللہ بن شداد بن الہاد سے روایت ہے کہ ہم زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے فرمایا ایک دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے ہاتھوں میں چاندی کی بڑی بڑی انگوٹھیاں دیکھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا اے عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ میں نے اس لئے بنوائی ہیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاطر زیب و زینت اختیار کروں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ میں نے کہا نہیں یا وہ کہا جو اللہ کو منظور ہوا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تجھے جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہیں۔

 

چر نے والے جانوروں کی زکوٰۃ کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حضرت حماد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس رضی اللہ عنہ سے ایک کتاب لی جس کے متعلق ان کا بیان تھا کہ اس کتاب کو حضرت انس کے واسطے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا اور اس پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مہر کا نقش تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو مصدق (صدقہ یعنی زکوٰۃ وصول کر نے والا) بنا کر بھیجا تو یہ کتاب ان کو لکھ کر دی تھی اس میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مذکور تھا کہ یہ فرض زکوٰۃ کا بیان ہے جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بحکم خدا مسلمانوں پر لازم قرار دیا ہے پس جس مسلمان سے (اس کتاب میں مذکور تفصیل کے ساتھ) زکوٰۃ طلب کی جائے وہ اس کو ادا کرے اور اگر اس سے زائد طلب کی جائے تو نہ دے جب اونٹ پچیس سے کم ہوں تو اس کی زکوٰۃ بکریاں ہیں اس طرح پر کہ ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے اور جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پھر ایک بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) ہے یہ حساب پینتیس اونٹوں تک چلے گا اگر اس کے پاس بنت مخاض نہ ہو تو اس کے بدلہ میں ابن لبون (دو سالہ اونٹ ہے) اور جب چھتیس اونٹ پورے ہو جائے تو ان میں ایک بنت لبون ہے (دو سالہ اونٹنی) اور یہ حساب پینتالیس اونٹوں تک چلے گا اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک حقہ (تین سالہ اونٹنی جو گابھن ہونے کے لائق ہو) واجب ہو گی اور یہ حساب ساٹھ اونٹوں تک چلے گا اور جب اونٹوں کی تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے تو پھر ان میں ایک جذعہ (چار سالہ اونٹنی) واجب ہو گی اور یہ حساب پچھتر اونٹوں تک چلے گا جب اونٹوں کی تعداد چہترہو جائے تب انمیں دو بنت لبون واجب ہوں گی نوے اونٹ تک اور جب اکیانوے اونٹ ہو جائیں تو ان میں دو حقے ہوں گے جو گابھن ہونے کے لائق ہوں ایک سو بیس اونٹ تک اور جب اونٹ ایک سو بیس سے زیادہ ہوں تو ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس میں ایک حقہ دینا ہو گا اگر کسی کے پاس وہ اونٹ نہیں ہے جو مذکور ہو مثلاً کسی کے پاس اکسٹھ اونٹ ہوں جس پر ایک جذعہ واجب ہوتا ہے مگر اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو وہی لے لیا جائے گا اور اگر مالک (جذعہ نہ ہونے کی صورت میں) حقہ کے ساتھ دو بکریاں یا (حقہ کے بدلہ) بیس درہم دینا چاہے تو لے لیا جائے اور جس شخص کے پاس اونٹوں کی اتنی تعداد ہو گئی جس پر حقہ واجب ہے مگر اس کے پاس حقہ موجود نہیں ہے بلکہ جذعہ ہے تو اس سے جذعہ لے لیا جائے گا اور صدقہ وصول کر نے والا بیس درہم یا دو بکریاں دے کر اس کا نقصان پورا کر دے گا اسی طرح اگر کسی پر حقہ واجب ہو مگر حقہ نہ ہو بلکہ بنت لبون ہو تو وہی لے لیا جائے گا ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہاں سے اس حدیث کو اپنے شیخ موسیٰ سے حسب منشاء ضبط نہی کر سکا یعنی یہ کہ اگر صاحب مال بنت لبون کے ساتھ ساتھ حقہ کے نقصان کی تلافی کے طور پر دو بکریاں یا بیس درہم دے دے (تو وہ بھی لے لے) اور اگر کسی کے پاس اونٹوں کی اتنی تعداد ہو جس پر ایک بنت لبون واجب ہوتی ہے مگر اس کے پاس صرف حقہ ہی ہے تو وہی لے لیا جائے گا ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہاں تک میں اس حدیث کو اچھی طرح ضبط نہ کر سکا اور صدقہ لینے والا صاحب مال کو بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا اور جس کے پاس اونٹوں کی تعداد اتنی ہو گئی کہ اس پر بنت لبون واجب ہوتی ہے مگر اس کے پاس صرف بنت مخاض ہے تو بنت مخاض ہی اس سے وصول کر لی جائے گی اور اس کے ساتھ دو بکریاں بھی لے لی جائیں گی یا بیس درہم۔ اور جس پر بنت مخاض واجب ہے اور اس کے پاس صرف ابن لبون ہی ہے تو اس سے وہی لے لیا جائے گا اور مزید کوئی چیز نہیں دی جائے گی۔ اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے مگر جو اس کا مالک اپنی خوشی سے دینا چاہے (بکریوں کا نصاب) اور اکثر باہر چر نے والی بکریاں جب چالیس ہوں تو ان میں ایک بکری واجب ہے ایک سو بیس تک اور اس سے زیادہ میں دو بکریاں ہیں دو سو تک اور اس سے زیادہ میں تین بکریاں ہیں تین سو تک اور اس سے زیادہ ہوں تو ایک بکری ہے ہر سینکڑہ میں۔ اور زکوٰۃ میں بوڑھی اور عیب دار بکری نہیں لی جائے گی اور نہ بکرا لیا جائے گا الا یہ کہ محصل بکرا ہی لینا چاہے اور نہ جمع کیا جائے متفرق مال اور نہ الگ الگ کیا جائے مشترک مال زکوٰۃ کے خوف سے اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ برابر کا حصہ لگا کر ایک دوسرے پر رجوع کر لیں اگر جانور چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ نہیں ہے الا یہ کہ مالک چاہے اور چاندی میں چالیسواں حصہ واجب ہے اگر ایک سو نوے درہم ہوں تو ان میں کچھ نہیں ہے الا یہ کہ مالک چاہے تو دیدے۔

 

عبد اللہ بن محمد، عباد بن عوام، سفیان بن حسین، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتاب الصدقہ لکھوائی لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو اپنے عاملین تک بھی بھیجنے نہ پائے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کتاب کو اپنی تلوار سے لگا رکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی وفات تک اس پر عمل کیا اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا اس کتاب میں لکھا ہوا تھا کہ پانچ اونٹوں میں ایک بکری ہے اور دس میں دو بکریاں ہیں پندرہ میں تین بکریاں بیس میں چار بکریاں ہیں اور پچیس سے لے کر پینتیس تک ایک بنت مخاض ہے پھر پینتیس سے ایک بھی زیادہ ہو تو ایک بنت لبون ہے پینتالیس تک پھر پینتالیس سے ایک بھی زیادہ ہو تو ایک حقہ ہے ساٹھ تک پھر ساٹھ سے ایک بھی زیادہ ہو تو ایک جذعہ ہے پچھتر تک پھر پچھتر سے ایک بھی زیادہ ہو تو تو دو حقے ہوں گے ایک سو بیس تک پھر جب اونٹ ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس میں ایک حقہ ہو گا ہر چالیس میں ایک بنت لبون اور بکریوں میں ہر چالیس بکریوں میں ایک بکری ہے ایک سو بیس تک اگر ایک سو بیس سے ایک بکری بھی زیادہ ہو گی تو دو بکریاں ہوں گی دو سو تک پھر جب دو سو سے اوپر ایک بکری بھی زائد ہو جائے گی تو اس میں تین بکریاں ہیں تین سو تک پھر جب تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سینکڑہ پر ایک بکری دینا واجب ہو گی اور جو عدد سینکڑہ سے کم ہو گا اس میں کوئی زکوٰۃنہیں ہو گی (نیز اس کتاب میں یہ بھی تھا کہ) الگ الگ نہ کیا جائے مشترک مال کو اور نہ اکٹھا کیا جائے الگ الگ مال کو زکوٰۃ کے خوف سے (یعنی زکوٰۃ سے بچنے کے لیے مشترک مال کو الگ الگ اور جدا جدا مال کو مشترک نہ دکھایا جائے بلکہ جو واقعہ ہے اس کے مطابق زکوٰۃ ادا کی جائے گی) اور جو مال دو آدمیوں میں مشترک ہو وہ ایک دوسرے سے لے کر اپنا حصہ برابر کر لیں اور خیال رہے زکوٰۃ میں بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے۔ زہری نے کہا کہ جب زکوٰۃ وصول کر نے والا آئے تو بکریوں کے تین حصے کر لیں ایک حصہ میں صرف گھٹیا بکریاں ہوں اور دوسرے حصہ میں عمدہ قسم کی اور تیسرے حصہ میں درمیانہ درجہ کی پس زکوٰۃ وصول کر نے والا درمیانہ درجہ کی بکریوں میں سے لے لے گا اور زہری نے کتاب الصدقہ میں گائے بیل کے نصاب کا ذکر نہیں کیا۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن یزید سفیان بن حسین، حضرت سفیان بن حصین سے سابقہ سند ومفہوم کے ساتھ روایت مذکور ہے مگر اس میں یہ جملہ کا اضافہ ہے کہ اگر بنت مخاص نہ ہو تو بنت لبون لے لے لیکن اس روایت میں زہری والا کلام مذکور نہیں ہے۔

 

محمد بن علاء، ابن مبارک، یونس بن یزید، ابن شہاب، حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ اس کتاب کی نقل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زکوٰۃ کے بارے میں لکھوائی تھی اور وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اولاد کے پاس موجود تھی ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھے اس کتاب کو سالم بن عبداللہ نے پڑھایا اور اس طرح میں نے اس کو یاد کر لیا اور اس نسخہ کو عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ عمر کے پاس نقل کروایا تھا پس راوی نے سابقہ حدیث کی مانند حدیث ذکر کی اور کہا کہ جب اونٹ ایک سو اکیس ہو جائیں جب ایک سو تیس ہوں تو دو بنت لبون اور ایک حقہ ہو گا ایک سو انتالیس تک جب ایک سو چالیس ہو جائیں تو دو حقے اور ایک بنت لبون دینی ہو گی ایک سو انچاس تک جب ایک سو پچاس ہوں تو تین حقے دینا ہوں گے ایک سو انسٹھ تک اور جب ایک سو ساٹھ ہو جائیں تو چار بنت لبون دینی ہوں گی ایک سو انہتر تک جب ایک سو ستر ہوں تو تین بنت لبون اور ایک حقہ ہو گا ایک سو اناسی تک جب ایک سو اسی ہوں تو دو حقے اور دو بنت لبون دینی ہو گی ایک سو نناوے تک اور جب پورے دو سو ہو جائیں تو چار حقے یا پانچ بنت لبون جو بھی موجود ہوں ان میں سے لے لے اور ان بکریوں کا نصاب جو جنگل میں چرائی جاتی ہیں اس طرح ذکر کیا جس طرح سابقہ حدیث یعنی سفیان بن حسین کی حدیث میں مذکور ہے مگر اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ زکوٰۃ میں بوڑھی اور عیب دار بکری نہ لی جائے اور نہ ہی بکرا لیا جائے مگر یہ کہ زکوٰۃ دینے والا اپنی خوشی سے دینا چاہے۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، حضرت مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول (وجوب زکوٰۃ سے بچنے کے لیے) متفرق مال کو اکٹھا نہ کیا جائے اور نہ اکٹھے مال کو متفرق کیا جائے کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد ہوں جن میں سے ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہوں پس جب زکوٰۃ اصول کر نے والا ان کے پاس آئے تو وہ (متفرق مال) اکھٹا کر لیں تاکہ ان سب پر صرف ایک ہی بکری واجب ہو اور اکٹھے مال کو متفرق نہ کیا جائے کا مطلب یہ ہے کہ دو شریک ہوں جنمیں سے ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہیں اور ان دونوں پر مشترکہ طور پر تین بکریاں واجب ہوتی ہیں لیکن جب زکوٰۃ وصول کر نے والا آئے تو وہ اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں اور اس طرح ان میں سے ہر ایک پر ایک ایک بکری لازم آئے گی، حضرت مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ یہ ہے وہ تفسیر جو میں نے مندرجہ بالا قول کی سنی ہے۔

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، ابو اسحاق ، عاصم، حارث، اعور، علی حضرت زہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابو اسحاق نے اپنی حدیث میں عن علی کے بعد عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذکر کیا ہے (یعنی) آپ نے فرمایا زکوٰۃ میں چالیسواں حصہ نکالو یعنی ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم لیکن جب تک تمہارے پاس دو سو درہم نہ ہو جائیں اس وقت تک تم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے پس جب دو سو درہم پورے ہو جائیں تو ان میں سے پانچ درہم زکوٰۃ نکال دو اور جو درہم دو سو سے زائد ہوں ان پر اسی حساب سے (اڑھائی فیصد کے حساب سے) زکوٰۃ نکالو اور بکریوں میں ہر چالیس بکریوں پر ایک بکری کی زکوٰۃ ہے لیکن اگر (ایک بھی کم ہو یعنی) انتالیس ہوں تو پھر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے پھر ابو اسحاق نے بکریوں کی زکوٰۃ کو اسی طرح بیان کیا جس طرح زہری نے بیان کیا اور گائے بیلوں میں ہر تیس گائے بیلوں پر ایک سال کی ایک گائے زکوٰۃ میں دینی ہو گی اور ہر چالیس گائے بیلوں پر دو سال کی ایک گائے دینی ہو گی اور وہ گائے بیل جو (پانی کی سنچائی یا مال کی دھلائی وغیرہ کا) کام کرتے ہوں ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے اور اونٹوں کی زکوٰۃ کو ابو اسحاق نے اسی طرح بیان کیا جس طرح زہری نے بیان کیا ہے یعنی پچیس اونٹوں پر پانچ بکریاں دینی لازم ہونگی اور اگر پچیس سے ایک بھی زائد ہو گا تو پھر ایک بنت مخاض (ایک سالہ اونٹنی) ہو گی اور اگر بنت مخاض نہ ہو تو پھر ایک ابن لبون (دو سالہ اونٹ) ہے پینتیس تک۔ جب پینتیس سے ایک بھی زائد ہو تو ان میں ایک بنت لبون ہے پینتالیس تک۔ جب پینتالیس سے بھی زیادہ ہوں تو ان میں ایک حقہ ہے جو جفتی کے لائق ہو ساٹھ تک پھر ابو اسحاق نے بیان اسی طرح کیا جس طرح زہری کی حدیث میں ہے یہاں تک کہ اگر نوے سے ایک بھی زیادہ ہو یعنی اکیانوے ہو جائیں تو ان میں جفتی کے لائق دو حقے ہیں ایک سو بیس تک۔ جب اس سے زیادہ ہوں تو ہر پچاس پر ایک حقہ دینا ہو گا (اور آپ نے فرمایا) زکوٰۃ واجب ہونے کے ڈر سے نہ تو مجتمع مال کو الگ الگ کیا جائے اور نہ الگ الگ مال کو مجتمع کیا جائے اور زکوٰۃ میں نہ بوڑھا جانور لیا جائے اور نہ عیب اور نقص والا اور نہ نر جانور مگر یہ کہ زکوٰۃ وصول کر نے والا اپنی خوشی اور مرضی سے لینا چاہے اور زمین کی پیداوار میں جن میں آب پاشی بارش سے ہوتی ہو یا نہروں سے کی جاتی ہو زکوٰۃ میں دسواں حصہ لازم ہو گا اور جن زمینوں میں رہٹ وغیرہ سے پانی کھینچ کر آب پاشی کی جائے اس کی پیداوار میں بیسواں حصہ زکوٰۃ میں وصول کیا جائے گا، عاصم اور حارث کی حدیث میں ہے کہ ہر سال، زہیر نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ ابو اسحاق نے کہا ایک مرتبہ (یعنی ہر سال ایک مرتبہ زکوٰۃ لی جائے گی) اور عاصم کی روایت کردہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ اگر اونٹوں میں بنت مخاض نہ ہو اور نہ ہی ابن لبون ہو تو پھر زکوٰۃ میں دس درہم یا دو بکریاں واجب ہونگی۔

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، جریر بن حازم، ابو اسحاق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تیرے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پر ایک سال گذر جائے تو ان میں پانچ درہم زکوٰۃ واجب ہو گی اور فرمایا سونے میں تجھ پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے جب تک کہ تیرے پاس بیس دینار نہ ہو جائیں جب بیس دینار ہو جائیں اور ان پر ایک سال گذر جائے تو ان میں آدھا دینار دینا ہو گا پھر جتنے زیادہ ہوں ان پر اس حساب سے (چالیسواں حصہ) دینا ہو گا ابو اسحاق نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ پھر اسی حساب سے دینا ہو گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اور کسی مال میں زکوٰۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر ایک سال نہ گذر جائے ابن وہب کہتے ہیں کہ جریر نے حدیث میں عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اضافہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی مال میں زکوٰۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر ایک سال نہ گذر جائے

 

عمرو بن عون، ابو عوانہ، ابو اسحاق عاصم بن ضمرہ، علی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے گھوڑوں اور لونڈی و غلام کی زکوٰۃ معاف کر دی پس چاندی کی زکوٰۃ دو ہر چالیس درہم پر ایک درہم لیکن خیال رہے ایک سو نوے درہم میں زکوٰۃ نہیں ہے جب دو سو درہم پورے ہوں گے تب زکوٰۃ واجب ہو گی اور زکوٰۃ میں پانچ درہم دینے ہوں گے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو عوانہ کی طرح اعمش نے بھی ابو اسحاق سے یہ روایت نقل کی ہے اور اسی طرح شیبان ابو معاویہ اور ابراہیم بن طہمان نے بواسطہ ابو اسحاق بسند حارث بروایت علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کیا ہے اور شعبہ اور سفیان وغیرہ نے بواسطہ ابو اسحاق بسند عاصم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نفیلی کی حدیث (جو آگے آرہی ہے) نقل کی ہے ان حضرات نے حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرفوعاً نقل نہیں کیا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر موقوف کیا ہے۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد بہر بن حکیم، محمد بن علاء، ابو اسامہ، حضرت بہز بن حکیم بسند والد اہنے دادا (معاویہ ابن جدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب جنگل سے چر نے والے چالیس اونٹ ہوں تو ایک بنت لبون دینی ہو گی اور (زکوٰۃ سے بچنے کی غرض سے) اونٹ اپنے مقام سے جدا نہ کئے جائیں جو شخص اجر پانے کے لیے زکوٰۃ ادا کرے گا اس کو اس کا اجر ملے گا اور جو شخص زکوٰۃ کو روکے گا ہم اس سے زکوٰۃ وصول کریں گے اور بطور سزا اس کا آدھا مال لے لیں گے اور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

 

نفیلی، ابو معاویہ، اعمش، ابو وائل، معاذ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو (زکوٰۃ کی وصول یابی کے لیے یمن کی طرف بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر تیس گائے بیل میں سے ایک سال کی عمر کا بیل یا ایک سال کی عمر والی گائے لینے کا حکم فرمایا اور ہر چالیس گائے بیلوں پر دو سال کی گائے لینے کا حکم فرمایا اور (جزیہ کے طور پر غیر مسلم سے) ہربالغ مرد سے ایک دینار لینے کا یا اس کے بدلہ میں معافر یعنی یمن کے بنے ہوئے کپڑے لینے کا حکم فرمایا۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابن مثنی، ابو معاویہ، اعمش، (ایک دوسری سند کے ساتھ بھی) حضرت معاذرضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان اسی طرح مذکور ہے۔

 

ہارون بن زید بن ابی زرقا ء، سفیان، اعمش، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو (زکوٰۃ کی وصول یابی کے لیے) یمن کی طرف بھیجا اس کے بعد راوی نے باقی روایت حسب سابق ذکر کی لیکن اس میں نہ تو (دینار کے بدلہ میں) یمنیٰ کپڑے لینے کا ذکر ہے اور نہ ہی اس میں بالغ مرد کا ذکر ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس روایت کو جریر، یعلی، معمر، شعبہ، ابو عوانہ، اور یحیی بن سعید نے بروایت اعمش، بطریق ابو وائل حضرت مسروق سے روایت کیا ہے یعلی اور معمر نے حضرت معاذکو بھی ذکر کیا ہے۔

 

مسدد، ابو عوانہ، ہلال بن خباب، میسرہ، ابو صالح، سوید بن غفلہ حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں خود گیا (یا یہ کہا کہ) جو شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مصدق کے ساتھ گیا اس نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کتاب میں لکھا ہوا تھا کہ زکوٰۃ میں دودھ والی بکری (یا دودھ پیتا بچہ) مت لینا اور نہ اکٹھا کرنا جدا جدا مال کو اور نہ جدا کرنا اکٹھے مال کو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مصدق اس وقت آتا تھا جب بکریاں پانی پر جاتی تھیں پس وہ کہتا تھا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو راوی کہتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی کوماء اونٹنی دینی چاہی ہلال راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو صالح سے پوچھا کہ کوماء کیا ہے؟ انہوں نے کہا بڑی کوہان والی اونٹنی، مصدق نے اس کے لینے سے انکار کیا اس نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ تو میرا بہتر سے بہتر اونٹ لے مصدق نے اس کے باوجود انکار کیا پھر اس شخص نے اس سے کچھ کم درجہ کا اونٹ کھینچا مصدق نے اس کے لینے سے بھی انکار کیا پھر اس نے اس سے کم درجہ کا اونٹ کھینچا مصدق نے اس کو لے کر کہا کہ میں اس کو لے تو رہا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ پر غصہ نہ ہوں اور فرمائیں کہ تو نے چن کر ایک شخص کا بہتر اونٹ لے لیا ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو ہشیم نے ہلال بن خباب سے اسی طرح روایت کیا ہے مگر اس نے لا یفرق نہیں کہا ہے۔

 

محمد بن صباح، بزاز، شریک، عثمان بن ابی زرعہ، ابو لیلی، سوید بن غفلہ حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مصدق آیا میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی کتاب میں پڑھا نہ اکٹھا کیا جائے جدا جدا مال اور نہ جدا جدا کیا جائے اکٹھا مال زکوٰۃ کے خوف سے اس روایت میں دودھ والے جانور کا ذکر نہیں ہے۔

 

"حسن بن علی، وکیع، زکریا بن اسحاق ، عمرو بن ابی سفیان، مسلم بن ثفنہ حسن حضرت مسلم بن ثفنہ یشعری سے روایت ہے (حسن نے کہا ہے کہ روح نے مسلم بن شعبہ ذکر کیا ہے) وہ کہتے ہیں کہ ابن علومہ نے میرے والد کو اپنی قوم کے کاموں پر منتظم بنایا اور ان کو زکوٰۃ وصول کر نے کا حکم دیا پس میرے والد نے مجھے ایک جماعت کے پاس بھیجا میں ایک بوڑھے شخص کے پاس پہنچا جس کا نام سعر تھا میں نے کہا کہ میرے والد نے مجھے آپ سے زکوٰۃ وصول کر نے کے لیے بھیجا ہے وہ شخص بولا برادر زادے تم کس قسم کے جانور لوگے؟ میں نے کہا کہ ہم چن کر اور تھنوں کو دیکھ کر عمدہ قسم کا جانور لیں گے۔ وہ بولا میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں اپنی بکریاں لیے ہوئے ہیں کسی گھاٹی میں رہتا تھا ایک سو آدمی اونٹ پر سوار ہو کر آئے اور بولے ہم آپ سے زکوٰۃ لینے کے لیے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بھیجے ہوئے آئے ہیں میں نے کہا مجھے کیا دینا چاہیے؟ انہوں نے کہا ایک بکری میں نے ایک بکری کا قصد کیا جس کو میں پہچانتا تھا کہ وہ چربی اور دودھ سے بھری ہوئی ہے میں اس کو نکال لایا انہوں نے کہا یہ بکری گابھن ہے ایسی بکری لینے سے ہمیں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا ہے میں نے ان سے پوچھا پھر کیا لوگے انہوں نے کہا کہ ایک سال کی بکری جو دوسرے سال میں لگ چکی ہو یا دو سال کی بکری جو تیسرے سال میں لگ چکی ہو لہذا میں نے ایک ایسی بکری کا ارادہ کیا جو موٹی تھی اور بیاہی نہ تھی مگر بیاہنے والی تھی نکال کر دے دی جس کو انہوں نے لے لیا اور اونٹ پر سوار کر لیا اور چلے گئے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو ابو عاصم نے بھی زکریا سے روایت کرتے ہوئے مسلم بن شعبہ کہا ہے جسا کہ روح نے کہا۔

 

محمد بن یونس، روح، زکریا بن اسحاق ، مسلم بن شعبہ، شافع، ابن اسحاق نے سابقہ سند کے ساتھ اس حدیث کو روایت کرتے ہوئے کہا ہے مسلم بن شعبہ اس میں یہ ہے کہ شافع وہ ہے جس کے پیٹ میں بچہ ہو ۔"

 

ابو داؤدکہتے ہیں کہ عمرو بن حارث حمصی کہ آل کے پاس حمص میں میں نے عبداللہ بن سالم کی کتاب میں پڑھا جو زبیدی سے مروی ہے عبداللہ بن سالم کہتے ہیں کہ مجھے یحیی بن جابر نے بواسطہ جبیر بن نضیر حضرت عبداللہ بن معاویہ غاضری خبر کر دی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین باتیں ہیں جو شخص ان کو کرے گا وہ ایمان کا مزہ پائے گا ایک اللہ کی عبادت کرے اور دوسرے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُکا اقرار کرے اور تیسرے ہر سال اپنے مال کی زکوٰۃ خوشی خوشی ادا کرے اور بوڑھا خارشی، بیمار، اور گھٹیا جانور نہ دے بلکہ درمیانہ درجہ کا دے کیونکہ اللہ تعالی تم سے نہ محض عمدہ مال چاہتا ہے اور نہ ہی گھٹیا مال کو پسند کرتا ہے۔

 

محمد بن منصور، یعقوب بن ابراہیم، ابن اسحاق ، عبداللہ بن ابی بکر، یحیی بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن سعد، زرارہ عمارہ بن عمرو بن حزم ابو بن کعب حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مصدق بنا کر بھیجا میں ایک شخص کے پاس پہنچا جب اس نے اپنا مال اکھٹا کیا تو اس پر ایک بنت مخاض واجب ہوئی میں نے کہا لا ایک بنت مخاض دے تجھ پر زکوٰۃ میں یہی واجب ہوا ہے وہ بولا بنت مخاض کس کام کی نہ وہ دودھ دیتی ہے اور نہ اس پر سواری کی جا سکتی ہے اس کے بجائے یہ خوب فربہ اور جوان اونٹنی لے لو میں نے کہا وہ چیز میں نہیں لوں گا جس کے لینے کا مجھے حکم نہیں ہوا البتہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیرے قریب ہی میں موجود ہیں ان سے جا کر عرض کر اگر وہ قبول فرما لیں تو میں لے لوں گا ورنہ واپس کر دوں گا اس نے کہا اچھا میں چلتا ہوں اور وہ اسی اونٹنی کو میرے ساتھ ساتھ لے کر چلا جب ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ شخص بولا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد زکوٰۃ کی وصولیابی کے لیے میرے پاس آیا بخدا اس سے قبل میرے مال کو نہ تو اللہ کے رسول نے ملاحظہ فرمایا اور نہ ہی ان کے قاصد نے دیکھا تو میں نے اپنے مال کو اکھٹا کیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد بولاتجھ پر ایک بنت مخاض لازم ہے اور حال یہ کہ بنت مخاض نہ دودھ دیتی ہے اور نہ سواری کے لائق ہے اس لئے میں نے اس کو ایک جوان اور فربہ اونٹنی دینی چاہی لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا اور وہ اونٹنی یہ ہے اب میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لے کر آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو قبول فرما لیجئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نے فرمایا تیرے اوپر واجب تو یہی بنت مخاض ہوئی ہے لیکن اگر تو اپنی خوشی سے اس کو دے رہا ہے تو اللہ تعالی تجھ کو اس کا اجر عطا فرمائے گا اور ہم قبول کر لیں گے وہ شخص بولا تو پھر یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ لے لیجئے یہ وہی اونٹنی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی وہ اونٹنی لے لینے کا حکم فرمایا اور اس کے مال میں خیر و برکت کی دعا کی۔

 

احمد بن حنبل، وکیع، زکریا بن اسحاق ، یحیی بن عبداللہ بن صیفی، ابو معبدحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا تم اہل کتاب کے ایک گروہ کے پاس پہنچو گے پس تم ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ہوں اگر وہ یہ دعوت قبول کر لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر یہ بات بھی مان لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ نے ان کے مالوں میں ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے ناداروں میں تقسیم کر دی جائے گی اگر وہ یہ بات مان لیں تو پھر ان سے بہتر اموال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا کیونکہ مظلوم کی بددعا اور اللہ کے درمیان میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔

قتیبہ بن سعید، لیث یزید بن ابی حبیب، سعد بن سنان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا زکوٰۃ وصول کر نے میں زیادتی کر نے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ زکوٰۃ دینے سے منع کر نے والا۔

 

مصدق کو راضی کر نے کا بیان

 

مہدی بن حفص، محمد بن عبید، حماد، ایوب، ولیم نامی ایک شخص نے (بشیر بن خصاصیہ سے) پوچھا کہ زکوٰۃ وصول کر نے والے ہم سے زائد مال وصول کیا کرتے ہیں تو کیا ہم اس قدر مال چھپا لیا کریں؟ انہوں نے کہا نہیں۔

 

حسن بن علی، یحیی، بن موسی، عبدالرزاق، معمر، ایوب حضرت ایوب سے سابقہ بسند اور معنی کے ساتھ روایت ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ صدقہ وصول کر نے والے ہم سے زیادتی کیا کرتے ہیں ابو داؤد کہتے ہیں کہ عبدالرزاق نے معمر کے واسطہ سے مرفوعاً روایت نقل کی ہے۔

 

عباس بن عبدالعظیم، محمد بن مثنی، بشر بن عمر، ابی غصن، صخر بن اسحاق ، عبدالرحمن بن جابر بن عتیک، حضرت جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عنقریب ایسے لوگ تم سے زکوٰۃ وصول کر نے آئیں گے جن کو تم نا پسند کرتے ہو گے پس جب وہ آئیں تو تم ان کو خوش آمدید کہنا اور جو لینا چاہیں وہ دے دینا اگر وہ انصاف سے کام کریں گے تو اس کا اجر پائیں گے اور اگر ظلم کریں گے تو اس کا وبال بھی انہی پر ہو گا ان کو راضی رکھنا کیونکہ تمہاری زکوٰۃ جبھی پوری ہو گی جب وہ خوش ہو جائیں گے اور تمھارے لیے دعائے خیر کریں گے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو الغصن سے مراد ثابت بن قیس بن غصن ہیں۔

 

ابو کامل، عبدالواحد بن زیاد، عثمان بن ابی شیبہ، عبدالرحیم بن سلیمان، محمد بن اسماعیل، عبدالرحمن بن ہلال، جریر، بن عبداللہ حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ چند اعرابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ زکوٰۃ وصول کر نے والے ہم پر زیادتی کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو راضی رکھو انہوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگرچہ وہ ہم پر ظلم کریں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو راضی رکھو اگرچہ وہ تم پر ظلم کریں، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ سنا ہے اس وقت سے کوئی مصدق میرے پاس سے نہیں لوٹا مگر خوش ہو کر۔

 

زکوٰۃ وصول کر نے والا زکوٰۃ دینے والے کے حق میں دعائے خیر کرے

 

حفص بن عمر، ابو ولید، شعبہ، عمرو بن شعبہ، عمرو بن مرہ، عبداللہ بن ابی اوفی حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ سے روایت ہے کہ میرے والد ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے رضوان نامی درخت کے نیچے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوٰۃ لے کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے حق میں دعا فرماتے میرے والد بھی اپنی زکوٰۃ لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، اے اللہ رحمت نازل فرما ابو اوفی کی اولاد پر۔

 

اونٹوں کی عمروں کا بیان

 

ابو داؤد، ابو حاتم، ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نے ابو ریاشی اور حاتم سے سنا ہے اور نضر بن شمیل اور ابو عبید کی کتاب سے حاصل کیا ہے کوئی بات ان میں سے کسی ایک ہی نے کہی ہے ان لوگوں نے کہا کہ اونٹ کا بچہ (جب تک پیٹ میں رہتا ہے) حوار کہلاتا ہے اور جب پیدا ہو چکتا ہے تو اس کو فصیل کہتے ہیں جب دوسرے برس میں لگے تو بنت مخاض، جب تیسرے میں لگے تو بنت لبون، جب تین برس کا ہو جائے تو چوتھے سال تک اس کو حق اور حقہ کہتے ہیں کیونکہ اس وقت تک وہ سواری اور جفتی کے لائق ہو جاتے ہیں اور نر اونٹ جوان نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ چھ برس کا ہو جائے اور حقہ کو طروقۃ الفحل بھی کہتے ہیں کہ نر اس پر کودتا ہے چار برس پورے ہونے تک جب پانچواں برس لگے تو جذعہ کہلاتا ہے پانچ برس پورے ہونے تک جب چھٹے برس میں لگے اور سامنے کے دانت گرائے تو ثنی ہے چھ برس پورے ہونے تک، جب سا تواں برس لگے تو نر کو رباعی اور مادہ کو رباعیہ کہیں گے سات برس پورے ہونے تک، جب آٹھواں برس لگے اور چھٹا دانت نکالے تو وہ سدیس اور سدس ہے آٹھ برس پورے ہونے تک، جب نواں برس لگے تو وہ بازل ہے کیونکہ اس کی کچلیاں نکل آتی ہیں دسواں برس شروع ہونے تک اب اس کا نام مخلف ہے اس کے بعد اس کا کوئی نام نہیں، مگر یوں کہیں گے کہ ایک سال کا بازل، دو سال کا بازل، ایک سال کا مخلف، دو سال کا مخلف تین سال کامخلف، پانچ سال تک اسی طرح کہیں گے اور خلفہ حاملہ کو کہتے ہیں ابو حاتم نے کہا ہے وہ جزوعہ ایک وقت کا نام ہے کوئی دانت نہیں ہے اور دانتوں کی فصل سہیل تارے کے نکلنے پر بدلتی ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ریاشی نے ہم کو یہ شعر سنائے (جن کا مفہوم یہ ہے) جب پہلی رات کو سہیل نکلا تو ابن لبون حق ہو گیا اور حق جذعہ بن گیا دانتوں میں سے کچھ نہ رہا سوائے ہبع کے، ہبع وہ بچہ ہے جو بیوقت پیدا ہوا ہو۔

 

اموال کی زکوٰۃ کہاں پر لی جائے

 

قتیبہ بن سعی، ابن ابی عدی، ابن اسحاق ، عمرو بن شعیب، حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد کے واسطہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (زکوٰۃ کے معاملہ میں) نہ جلب ہے، اور نہ جنب، بلکہ زکوٰۃ ان کے ٹھکانوں پر ہی لی جائے گی۔

 

حسن بن علی، یعقوب بن ابراہیم، محمد بن اسحاق ، حضرت محمد بن اسحاق سے لا جلب، ولاجنب کی تفسیر اسی طرح منقول ہے کہ جانوروں کی زکوٰۃ انہیں کے ٹھکانوں پر لی جائے اور عامل کے پاس کھینچ کر نہ لائے جائیں، جنب یہ ہے کہ جانوروں کو دور لے جائے ایسا بھی نہ کرے بلکہ اپنے مقام پر زکوٰۃ ادا کرے۔

 

زکوٰۃ دینے کے بعد پھر اس کو نہیں خریدنا چاہیے

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، نافع، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا خدا کی راہ میں دے دیا اس کے بعد انہوں نے اس کو بکتا ہوا دیکھا تو اس کو خریدنے کا ارادہ کیا مگر پہلے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو مت خریدو اپنے صدقہ میں رجوع مت کرو۔

 

غلام اور باندیوں کی زکوٰۃ

 

محمد بن مثنی، محمد بن یحیی بن فیاض، عبدالوہاب، عبید اللہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گھوڑے، غلام اور باندیوں میں زکوٰۃ نہیں ہے مگر غلام اور باندی کی طرف سے صدقہ فطر دینا چاہیے۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، عبداللہ بن دینار، سلیمان بن یسار، عراک بن مالک، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان پر اپنے گھوڑے یا غلام یا باندی اور کی زکوٰۃ نہیں ہے،

 

زراعت کی زکوٰۃ کا بیان

 

ہارون بن سعید، ہیثم، عبداللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، سالم بن عبداللہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو زراعت بارش، نہر یا چشمہ سے یا خود بخود زمین کی تری پا کر اگے اس میں دسواں حصہ لازم ہو گا اور جس زراعت میں پانی کھینچ کو دیا جائے اس میں بیسواں حصہ لازم ہو گا۔

 

احمد بن صالح، عبداللہ بن وہب، عمرو بن ابو زبیر، جابر بن عبداللہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس زراعت میں نہر سے پانی پہنچے یا وہ چشمہ سے سیراب ہو اس میں دسواں حصہ لیا جائے گا اور جس زراعت میں پانی کنوئیں وغیرہ سے کھینچ کر دیا جائے اس میں بیسواں حصہ لازم ہو گا۔